زمانہ قدیم سے دنیا کی بیشتر تجارت بحری راستے سے ہوتی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں سامان بھیجنے کا یہ سستا ترین ذریعہ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ دنیا کے تقریباً 70 فیصد حصہ پر موجود سمندروں کے ذریعہ 80 فیصد عالمی تجارت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے گہرے ساحلوں کی بندرگاہوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں بڑے سائز کے پانی کے جہاز لگ سکیں۔ تجارت کے علاوہ بندرگاہوں کے ذریعہ انسانی وسائل، افرادی قوت ، جانوروں کی نئی انواع اور تہذیب و ثقافت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے۔ سنگاپور کی پورٹس نے نہ صرف اس جزیرے بلکہ پورے آسیان خطے کی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس وجہ سے اس کو GATEWAY TO SOUTH EAST ASIA کہا جاتا ہے۔
بحری شاہراہ ریشم
دنیا کے بڑے سمندروں کو ملانے والی پانی کی یہ شاہراہ چینی ساحل سمندر (Chinese Coastline) سے شروع ہو کر ہندوستان کے جنوبی ساحل (Indian Ocean) سے ہوتی ہوئی ممباسا جاتی ہے۔ وہاں سے بحرہ احمر (Red Sea) سے سویز کینال کے ذریعے بحرہ روم (Mediterranean) کے راستے یورپ کی طرف جاتی ہے۔ جہاں پر اطالوی علاقہ Trieste پہنچ کر وہاں سے سینٹرل یورپ اور North Sea تک جاتی ہے۔ بحری شاہراہ ریشم کو اس مضمون کی تصویر میں سرخ رنگ کی لائن سے دکھایا گیا ہے۔ اپنے محل وقوع اور کامیاب تجارت کی بنیاد پر سنگاپور کو بحری شاہراہ ریشم MARITIME SILK ROAD میں مرکزی مقام کا درجہ دیا جاتا ہے۔ سنگاپور نے یہ مقام دو سو سال کی کوششوں سے حاصل کیا ہے۔ یہاں پر روزانہ ایک ہزار بڑے جہازوں کے آنے اور جانے کی سہولت موجود ہے۔ سالانہ 13000 جہاز یہاں پر آتے ہیں۔ اس وقت شنگھائی دنیا کی مصروف ترین بندرگاہ ہے جہاں پر 2023 میں 50 ملین TEU کے قریب سامان اتارا اور چڑھایا گیا جبکہ اسی سال سنگاپور پر 40 ملین TEU کا کام کیا گیا اور اس وقت سنگاپور کو دنیا کی دوسری بڑی بندرگاہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی دوران کراچی پورٹ پر 2.2 اور ممبئی پورٹ پر 6.5 ملین TEU کا بزنس ہوا۔
سنگاپور کی بندرگاہ کی سیر
1992 میں میرے سنگاپور کے قیام کے دوران پاکستانی اور بنگلہ دیش کے ڈاکٹرز کے گروپ کو ایک بڑی بندرگاہ JURONG کا دورہ کرایا گیا۔ہمیں پہلے اس کی جدید سہولیات کے بارے میں بڑی سکرین پر تفصیلات بتائی گئیں۔ یہاں پر 90 % فیصد سے زیادہ کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہمیں ایک کنٹرول روم میں لے جایا گیا جہاں پر چند افراد درجنوں مشینوں کو چلا رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سنگاپور میں چند بندرگاہیں ہیں جن کا کنٹرول پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی PSA کے پاس ہے۔ ان سب کی ملکیت ایک نیم سرکاری کمپنی Maritime & Singapore Port Authority کے پاس ہے۔ جو اس کو بزنس کے جدید اُصولوں کے مطابق چلاتی ہے۔ پاکستان کی بندرگاہ گوادر بھی PSA کو ٹھیکے پر دی گئی تھی لیکن اب اس کا کنٹرول چینی کمپنی کے پاس ہے۔
اس سے پہلے کہ آپ کو پورٹ کی سیر کرائی جائے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ یہ اتنی زیادہ مصروف کیسے ہے جبکہ سنگاپور ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ دراصل اس کی بندرگاہوں پر کنٹینر ایک بحری جہاز سے اتار کر دوسرے جہاز پر لاد دئے جاتے ہیں اور اگلے ملک کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سے یورپ اور امریکہ سے آنے والے سینکڑوں جہازوں کا سامان روزانہ اتار کر چین ، جاپان اور آسٹریلیا کے جہازوں پر روانہ کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ دور دراز جانے والے جہازوں میں تیل بھرا جاتا ہے اور ان کی مرمت کی جاتی ہے۔ ان کے عملے کو دوسری تمام ضروریات مہیا کی جاتی ہیں۔ عملے کے افراد سنگاپور کی سیر و تفریح کرتے ہیں۔ بہت سی صنعتی اشیا یہاں پر خام مال کو بہتر بنا کر یہاں تیار کی جاتی ہیں جن میں تیل کو صاف کرنا Oil Refining اور Wafer Fabrication شامل ہیں۔ بعد ازاں یہ چیزیں مہنگے داموں ایکسپورٹ کر کے قیمتی زر مبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔
JURONG PORT
یہ بندرگاہ سنگاپور اور آسیان خطے کی بحری تجارت کے لئے سب سے مصروف جگہ ہے۔ یہاں پر سٹیل ، سیمنٹ ، کاپر اور دیگر تعمیراتی سامان اتارا جاتا ہے۔ اس میں خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ماحولیات بالکل متاثر نہ ہو۔ اس مقصد کیلئے طویل پائپ لائنوں کا سلسلہ بنایا گیا ہے جس سے محفوظ طریقے سے یہ سامان منتقل کیا جاتا ہے۔ اس پورٹ کے مین گیٹ وے میں 32 برتھیں موجود ہیں۔ جبکہ تمام بندرگاہوں پر 70 سے زیادہ برتھیں ہیں۔ ان جگہوں پر 200 جدید کرینیں نصب کی گئی ہیں۔
PASIR PANJANG TERMINAL
یہ 18 میٹر گہرا ہے اور اس کی کرینیں کنٹینرز کی 24 قطاروں تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کا شمار مصروف پورٹس میں ہوتا ہے۔ اس طرح سے یہ ملک دنیا کی بحری تجارت کا ایک بڑا مرکز بن گیا ہے۔
OTHER PORTS OF SINGAPORE
سنگاپور بحر ہند اور South China Sea کے درمیان اہم مقام پر واقع ہے اور عالمی تجارت کا بڑا مرکز بن گیا ہے۔ دنیا کے تیل کی 50 فیصد سے زیادہ سپلائی یہاں سے گزر کر جاتی ہے۔ اس کا رابطہ 120 ملکوں کی 600 بندرگاہوں سے قائم ہے۔ اس کی دیگر بندرگاہوں میں TANJONG PASAR, KEPPEL, BRANI, SEMBSWANG اور حال ہی میں بننے والی TUAS شامل ہیں۔ ان بندرگاہوں پر کئی طرح کے جہاز لگ سکتے ہیں جن میں CONTAINER SHIPS, BULK CARRIERS, RO RO SHIPS, CARGO FREIGHTERS, COASTERS AND LIGHTERS شامل ہیں۔ آپ کو اتنی طرح کے پانی کے جہازوں کے نام سن کر حیرانی نہیں ہوئی۔ ہم تو بچپن میں ایک کاغذ کی کشتی پانی میں چلاتے تھے۔ یا پھر مٹی کے تیل سے چلنے والے ایک چھوٹی سی کشتی ہوتی تھی جس سے کھیل کر خوش ہو جاتے تھے۔
سنگاپور :جہاز رانی کی قدیم تاریخ
پہلی بڑی بندرگاہ دو سو برس قبل 1819 میں یہاں بنائی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہاں سے گزرنے والے جہازوں سے بھاری ٹیکس نہیں لئے جائیں گے۔ اس سہولت کی وجہ سے جلد یہاں بحری تجارت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی۔ ان سمندروں میں کئی سو سال سے تجارتی کشتیاں اور پانی کے جہاز چلتے رہے ہیں۔ 1604 عیسوی میں سنگاپور کے قریب شاہ بندر نامی بندرگاہ (Xabandria) کی تصویر اس مضمون کے ساتھ دی جا رہی ہے۔ اس سے تین سو سال پہلے بھی یہاں پر جہازوں کی آمد و رفت کا ذکر ملتا ہے۔ اس علاقے میں چینی تاجروں کی تجارتی سرگرمیاں 13 ویں صدی سے جاری تھیں۔ یہاں سے آگے جانے والی اشیا اپنی اچھی کوالٹی کے وجہ سے مشہور تھیں۔ 15 ویں صدی میں یہاں سلطنت ملاکہ کی پابندیوں کی وجہ تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ اس کے بعد اگلی دو صدیوں میں سنگاپور چینی Ceramics اور Rosewood کی تجارت کا بڑا مرکز رہا۔ 17 ویں صدی میں Aceh کی سلطنت نے سنگاپور پر حملہ کر کے اس کی تعمیرات اور تجارتی سہولیات تباہ کر دیں۔ بعد ازاں 1819 میں اس جزیرے اور بندرگاہ کی دوبارہ تعمیر نو کی گئی۔
دو سو سال قبل بڑی بندرگاہ کی تعمیر کی گئی
19 ویں صدی میں سنگاپور پر برطانیہ کا قبضہ تھا۔ ایک انگریزی آفیسر نے سنگاپور میں Harbour Keppel کے قریب عالمی بندرگاہ کا آغاز کیا۔ اس نے چینی اور انگریز تاجروں کو اس کی ترقی کے لئے استعمال کیا۔ چینی تاجر چین کے دور دراز علاقوں تک سامان لے کر جاتے تھے۔ انہوں نے سمندر کے نچلے حصے کی طرف اپنے دفتر بنا لئے۔ انگریز تاجروں کی تجارت کا رخ انڈیا کی طرف تھا جہاں پر انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ انہوں نے بالائی حصہ کی جانب اپنا کاروبار سجا لیا۔ اس وقت 3 بڑے سمندری راستے یہاں سے نکلتے تھے۔ ایک طرف اس کا رابطہ جنوبی چین کی بندرگاہوں Fujion اور Guangdong کے ساتھ تھا۔ جنوب مشرقی ایشیا کی جانب یہاں سے انڈونیشیا اور اس کی قریبی بندرگاہوں تک بحری تجارت ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ انڈیا اور یورپ کے درمیان تجارت کا سلسلہ قائم تھا۔ چند ہی سالوں میں اس نے جکارتہ (اس وقت کا نام Batavia) کی بندرگاہ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی بڑی وجہ فری ٹریڈ تھی جوکہ صرف اسی جگہ سے ہو سکتی تھی۔ اگلے چند برسوں میں یہ بھاپ (سٹیم) سے چلنے والے جہازوں کا مرکز بن گیا۔ یہاں پر ان جہازوں کو سستے داموں کوئلہ مل جاتا تھا۔ اس پورے خطے پر برطانیہ کے قبضہ کے بعد سنگاپور اس علاقے کے دارالحکومت بن گیا۔ سڑکوں اور ریل کا نظام قائم کر دیا گیا۔ ربر اور خوردنی تیل کو صاف کر کے یورپ بھیجا جانے لگا جس سے یہاں خوب ترقی ہوئی۔ انڈونیشیا اور ملائشیا سے معدنی ذریعے سے ملنے والا TIN بھی یہاں سے یورپ جاتا تھا۔
آزادی کے بعد تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن
1963 میں برطانیہ سے آزادی اور 1965 میں ملائشیا سے علیحدہ ہونے کے بعد تجارت میں اس کا مقابلہ قریبی ملکوں سے ہوا۔ اس دوران سنگاپور نے چیزوں کی کوالٹی خوب بڑھا کر مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ یہ جزیرہ دنیا بھر کے ملکوں سے خام مال منگا کر اس سے قیمتی چیزیں بنا کر ساری دنیا کو فروخت کرتا ہے۔ Artificial Jewellry کی تجارت کا بھی بڑا مرکز ہے۔ اس کامیاب تجارت کے لئے اس نے World Trade Organizatiom کو اچھے انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ملکوں سے آزادانہ تجارت کے معاہدے بھی کئے ہیں۔
مستقبل کی بندرگاہ کا آغاز
چند برس قبل TUAS کے نام سے ایک بڑی بندرگاہ کی تعمیر اور توسیع کا آغاز کیا جا چکا ہے جہاں پر جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ اس کے مکمل ہونے پر دو سو سال پرانی بندرگاہیں 1927 اور 1940 میں بند کر دی جائیں گی۔ 26 کلومیٹر کے رقبے پر گہرے پانی کے اندر پختہ تعمیرات کی جائیں گی۔ جہازوں کی آمد و رفت کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کو بڑے تجارتی دفتر اور گوداموں کی تعمیر کی اجازت ہو گی۔ اس مقام پر ایک ہزار کرینیں نصب کرنے کا پروگرام ہے۔ جس سے بحری تجارت میں پانچ گنا تک اضافے کا امکان ہے اور ہزاروں افراد کو ملازمت کے مواقع ملیں گے۔ اس جگہ پر 2021 سے جہازوں کی آمد شروع ہو چکی ہے اور 2025 میں اس کا باقاعدہ افتتاح کردیا جائے گا۔