Advertisement

غیر ملکی ٹیموں کو ہوم گراؤنڈ پر تگنی کا ناچ نچانے والے پاکستانی سپنرز کہاں گئے؟

ملتان ٹیسٹ کو سابق کرکٹرز، تجزیہ کار اور مداح پاکستان میں کرکٹ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔

شکست کی وجوہات، پاکستان کرکٹ کے ڈھانچے کی خستہ حالی اور ملتان کی پچ پر تو بہت بات ہو چکی لیکن اس سب کے دوران ایک سوال جو دوسرے ٹیسٹ سے پہلے پوچھا جا رہا ہے وہ یہ کہ پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کے لیے موزوں سپنرز کہاں ہیں؟

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ آج سے تین روز بعد اسی ملتان سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا ٹیسٹ کھیلا جانا ہے اور پہلے میچ کی فلیٹ وکٹ پر بین الاقوامی تنقید کے بعد امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس میچ میں پچ سپنرز کے لیے سازگار بنائی جا سکتی ہے۔

پہلے ٹیسٹ میں سپنر ابرار احمد کو انگلش بلے بازوں نے نہ صرف باآسانی ریڈ کر لیا بلکہ ان کے خلاف جارحانہ انداز اپنائے رکھا اور ان کے 35 اوورز میں 174 رنز بنے۔

ابرار اب تک پاکستان کے لیے صرف آٹھ ٹیسٹ کھیلے ہیں اور انھوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا شاندار آغاز اسی انگلش ٹیم کے خلاف اسی گراؤنڈ پر کیا تھا۔

انھوں نے دسمبر 2022 میں ملتان میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کی پہلی اننگز میں سات اور دوسری اننگز میں چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔

اس سیریز میں پاکستان کوئی میچ جیتنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکا تھا تاہم ابرار کی دو ٹیسٹ میچوں میں 17 وکٹیں سپنرز کے فقدان کا شکار پاکستان کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ضرور تھا۔

ابرار نے نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے خلاف سیریز میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن پھر انجری ان کی راہ میں حائل ہوئی اور وہ ایک سال کے لیے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیل سکے۔

اگست میں بنگلہ دیش کے خلاف راولپنڈی میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں ابرار صرف ایک وکٹ حاصل کر سکے تھے جبکہ پہلے ملتان ٹیسٹ میں انگلینڈ کے خلاف وہ وکٹوں سے محروم رہے۔

ان کے برعکس انگلش سپنرز نے ملتان ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری اننگز میں جیک لیچ نے ہی چار آؤٹ کر دیے تھے۔ یہ فرق انگلینڈ کے پاکستان کے گذشتہ دورے میں بھی عیاں تھا۔

ماضی میں جب انگلینڈ کی ٹیموں دورہ ایشیا پر آتی رہی ہیں تو انھیں سپنرز کے خلاف خاصی مشکلات رہی ہیں اور اس ضمن میں یاسر شاہ، سعید اجمل، ذوالفقار بابر اور دانش کنیریا جیسے سپنرز کی جانب سے عمدہ بولنگ کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔

اس سے پہلے ثقلین مشتاق مشتاق احمد اور عبدالقادر سمیت دیگر معروف سمیت سپنرز ہمیشہ سے ہی پاکستان کی ٹیسٹ ٹیموں کا اہم حصہ رہے ہیں۔

ایسے میں جب پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف 20 وکٹیں حاصل کرنے کے لیے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ایشیا کی معروف ٹیموں میں سے ایک پاکستان آخر انڈیا بنگلہ دیش، سری لنکا اور یہاں تک کہ افغانستان سے بھی پیچھے کیوں رہ گیا؟

    سپنرز کے قحط کی وجہ کیا؟

    سپنرز کے قحط کی وجہ جاننے کے لیے ہم نے پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کے دو کوچز سے بات کی، جنھوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔

    کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک کوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا نہیں کہ پاکستان میں سپنرز کی کمی ہے۔ آپ گذشتہ چار سال میں تین چار سپنرز آزما چکے ہیں لیکن سپنر بنانے کے لیے وقت لگتا ہے۔‘

    انھوں نے اس کی ایک وجہ پچز کو بھی قرار دیا۔ ’صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں گذشتہ کئی سال سے جس قسم کی پچز بنائی جا رہی ہیں، یا تو وہ فلیٹ ہوتی ہیں جیسے ہم نے ملتان میں دیکھا، یا پھر جس موسم میں یہاں ڈومیسٹک ٹورنامنٹ ہوتا ہے یعنی سردیوں میں تو یہ عموماً فاسٹ بولرز یا میڈیم پیسرز کے لیے سازگار ہوتی ہیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’اگر کسی سپنر کے لیے پچز سازگار نہیں تو وہ کیوں اپنا وقت ضائع کرے گا، اس لیے اکثر سپنر بیٹنگ بہتر کرنے کی جانب چل پڑتے ہیں۔‘

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب اسوسی ایشنز پر سرمایہ نہیں لگایا جائے گا اور بورڈ ہر کام اپنے ہاتھ میں رکھے گا تو نتیجہ یہی نکلنا ہے۔ کرکٹ کے فیصلے سابق کرکٹروں کی جانب سے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر نہیں ہونے چاہییں بلکہ نظام کی عزت کر کے ڈھانچے پر سرمایہ لگا کر کیے جانے چاہییں۔‘

    لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کوچ نے اس کی وجہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو بھی قرار دیا جہاں اب صرف ’رسٹ سپنرز‘ کو ہی زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ’کیونکہ لیگز میں پیسہ زیادہ ہے اور پاکستان میں فرسٹ کلاس کا نظام ہر کچھ سال کے بعد تبدیل ہوتا ہے اس لیے سپنرز کے لیے اچھے پیسے کمانے کے لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ وہ وائٹ بال کرکٹ کی بولنگ پر توجہ دیں اور اپنی بیٹنگ بہتر کر کے ایک اچھا پیکج بن جائیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’ٹیسٹ کرکٹ کے لیے جس قسم کا وقت اور محنت درکار ہے اس کے لیے بورڈ کو کھلاڑیوں کی معاونت بھی کرنی چاہیے جو نظر نہیں آتی بلکہ الٹا ادھر بھی زیادہ توجہ وائٹ بال پر ہے کیونکہ اس سے بورڈ کو بہتر ریوینیو ملتا ہے۔‘

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ پچز بہتر بنائیں، ایک حکمتِ عملی بنائیں اور وقت دیں تو کیوں سپنرز سامنے نہیں آئیں گے۔ انگلش ٹیم جب 2012 میں (یو اے ای) آئی تھی تو عبدالرحمان اور سعید اجمل نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا، ایسا اس لیے ہوا تھا کے سعید اور عبدالرحمان نے برسوں ڈومیسٹک کرکٹ میں لمبی بولنگ کی تھی۔‘

    اب جبکہ پاکستان کی جانب سے ایک بار نعمان علی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور ابرار کی دوسرے ٹیسٹ شمولیت کے بارے میں تاحال فیصلہ نہیں کیا گیا تو ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے تھنک ٹینک کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ضرور ہے کہ پاکستان میں سپنرز کی کمی کیسے پوری کی جا سکتی ہے۔

    Leave a Reply

    Your email address will not be published. Required fields are marked *

    اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
    error: