Advertisement

پاکستان میں سیاحت کا فروغ (بزم مکالمہ کی 29ویں نشست)

بزم مکالمہ کی انتیسویں نشست ٢٢ ستمبر بروز اتوار بہادریارجنگ اکادمی بہادر آباد میں منعقد کی گئ۔موضوع پاکستان میں سیاحت کا فروغ مشکلات تجاویز تھا مہمان مقرر مشہور سماجی رہنما اور جنرل سیکرٹری ٹوریسٹ سوسائٹی آف پاکستان۔کے شفیق اللہ اسماعیل تھے۔پروگرام کا آغاز حافظ زین العابدین نے تلاوت سے کیا معروف سماجی شخصیت سہیل یعقوب نے مہمان مقرر کا تعارف کرایا کہ شفیق اسماعیل ملکی بین الاقوامی سیاحت کا تجربی رکھتے ہیں سندھ بلوچستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے کام کررہے ہیں سفر دوستی کا ایک گروپ بنایا جس کے تحت ھفتہ اتوار تاریخی تفریحی مقامات کی سیاحت ھوتی ھے نیز کراچی کی تاریخی عمارتوں پر اتوار کی وزٹ کا بھی سلسلہ ھے۔
محترم شفیق اللہ اسماعیل نے سیاحت کے حوالے سے کہا انساں سیر تفریح کے لئے سیاحت کرتا ھے مقامات مقدسہ کے لئے کرتا ھے تاریخی عمارات مساجد قلعے علاقے قبرستان وغیرہ۔۔۔اپ نے سندھ پنجاب بلوچستان کے کئ تاریخی مقامات کا ذکر کیا جو ھندو سکھ بدھ مت کے لئے زائرین کا مرکز ہیں اور حکومت پاکستان کو ان کو سہولیات فراہم کرکے سیاحت کو صنعت کا درجہ دے سکتی ھے اسی طرح پاکستان میں دنیا کی گیارہ بڑی اونچی چوٹیوں میں سے پانچ ہیں جن کے لئے بیروں ملک سے سیاح آتے ہیں لیکن دیگر ممالک میں سیاحوں کو جو سہولیات حاصل ہیں وہ ہمارے پاس نہی ایئرپورٹ وغیرہ میں ہمیں ایسے تعارفی کتابچے فراہم کرنے یا انفارمیشن شعبہ قائم کرنے چاہیے جس سے سیاحوں کو مختلف شہروں کے تاریخی مقامات مساجد قلعے تفریحی مقامات ھوٹل ریسورٹ بتائے جائیں۔
باہر کے ممالک۔میں معذور شخص بھی وہیل چیئر پر سیاحت کرتا ھے بس وغیرہ میں سہولت مہیا کی جاتی ھے مگر ہمارے یاں عام بسوں کوچوں کا بھی برا حال ھوتا ھے حکومت کو چاہیے ٹوریسٹ بس ویگن کار وغیرہ کا انتظام بہتر اور بڑا کرے ۔تاکہ آسانی ھو۔کھانے کی اشیاء پر کنٹرول ھو ھزارہا روپے کھانے کا بل بنتا ھے آپ نے کہا ھمارے پاس سردی گرمی دونوں موسم کے لحاظ سے تفریحی مقامات ہیں اس پر پلاننگ کرنے کی ضرورت ھے آپ نے اعداد شمار پیش کئے کہ امریکہ کینیڈا یورپ ترکی وغیرہ میں کڑوروں لوگ سیاحت کے لئے آتے جس کی وجہ سے دیگر معاشی ترقی ھوئ۔اپ نے تجویز دی کہ صوبے کے بجائے وفاقی حکومت ٹوریزم دیکھے آپ نے کہا پانی کی فراہمی ٹوائلٹ کی فراہمی بھی ضروری ھے مسافروں کو بھی چاہیے کہ آلودگی نہ کریں کھانے کے بعد ضائع شدہ اشیاء پلاسٹک بیگ میں کسی کوڑے دا۔ میں پھینکں۔اپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا عموماً لوگ ایک ھفتہ میں تین چار شہروں کی سیاحت کرنا چاہتے اس لئے تھک بھی جاتے لطف اندوز بھی نہی ھوتے اس لئے کم از کم ایک جگہ تیں چار دن رہیں صبح کو تازہ ھوا موسم سے لطف اندوز ھوں آپ نے کہا میں مری جانے کا مشورہ نہی دیتا ھوں ابادی ٹریفک مہنگے ھوٹل بہتر ھے کہ آپ اور اوپر نارا۔ کاغان جائیں اسکردو جائیں۔۔۔اگر آپ اتنا وقت پیسے نہی لگا سکتے ہیں تو سندھ میں بھی کراچی سے چند گھنٹوں کی مسافت پر مری سے اچھا مقام فضا ملے گی ۔
آپ نے کہا کئ سو پرانی تاریخی عمارات مساجد قلعے کا اپنا حسن تعمیر کا فن ھے۔۔تھر کی سیاحت کھجور کے میلے آموں کی نمائش۔۔میلہ مویشیاں یہ سب دیکھنے کی چیزیں ہیں آپ نے کہا بیروں ملک پاکستانی اپنے بچوں کو اپنا ملک دیکھانے لائیں اور حکومت انہیں تحفظ سہولیات ویزہ سواری رہائش وغیرہ کے اچھے انتظام کرے تو یہ صنعت کا درجہ حاصل کرے گی اور ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرے گی ۔
مہمان مقرر کے بعد میزبان تقریب محترم طارق جمیل صاحب نے نئے شرکاء کا تعارف کرایا اور پھر مہمان مقرر کو بزم مکالمہ کی طرف سے یادگاری شیلڈ جناب سلطان فاروق احمد خان سینئر پاور اینڈ مینجمنٹ کنسلٹینٹ اور جناب عدیل احمد قریشی ریٹائرڈ افسرسندھ ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نےپیش کی ۔یہ لیکچر علی سدپارہ یادگاری لیکچر تھا جو مشہور پاکستانی کوہ پیما تھے فاضل مقرر نے پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ کے بھی امکانات کا جائزہ لیا آپ نے اس موقع پر مستنصر حسین تارڑ کا بھی خصوصی ذکر کیا جہنوں نے پچاس سفرنامے تحریر کئے اور پاکستان کے بالائی مقامات کے سفرنامے لکھ کر نوجوان نسل کو سیاحت اور کوہ پیمائی کا شوق پیدا کیا ۔
علمی ادبی سماجی شخصیات ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور موضوع کی مناسبت سے ٹورزم کے شعبے کی ممتاز شخصیات نے حصہ لیا سوالات بھی کئے تجاویز بھی دئے اور سیاحت کے لئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا سفر دوستی کا۔۔ فیس بک کے گروپ کے اراکین۔ نے بھی بھرپور شرکت کی ۔یہ محفل ایک بھرپور محفل تھی شفیق اللہ اسماعیل طارق جمیل اور بزم مکالمہ کے اراکین انتظامیہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
error: