Advertisement

پاکستان میں اردو کا نفاذ

قومی زبان اردو کے نفاذ کا فیصلہ 25فروری 1948کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ہونے والے دستور سازاسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔پہلا اجلاس22فروری کو ہوا تھا جس میں دستور سازاسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھایا اور اسی روز فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ)کے قیام کا فیصلہ ہوا۔25فروری کو دستور سازاسمبلی نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا ۔

اس موقع پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہے ۔دوتین بنگالی اراکین نے اردو کے حق میں تقرریں بھی کی اور ووٹ بھی دیئے ۔قانون سازاسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی تھی ۔لیکن شومئی قسمت 73سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حکمراںطبقہ اور بیوروکریسی اردو کے نفاذ میں مکمل طور پر رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔نفاذاردو کے ہر مواقع پر انھوں نے حیلے بہانوں سے کام لیا اور اردو کو اس ملک میں نافذ نہیں ہونے دیا گیا۔ 1956کے دستور میںاردوکو بطور قومی وسرکاری زبان نافذکرنے کا حکم دیا گیا ۔1962کے دستور میں بھی قومی زبان اردوہی قرار پائی ۔1973کے دستورمیںاردوکو قومی اور دفتری زبان قرار دیتے ہوئے 15سال کہ مہلت دی گئی کہ تمام دفتری اورتدریسی مواد قومی زبان میں منتقل کیا جائے ۔یہ مدت 14اگست 1988کو ختم ہوگئی ہے ۔لیکن پاکستان کی نااہل نوکر شاہی اور ظالم حکمرانو نے ملک میںنفاذاردو پر کوئی توجہ نہیں دی ۔2002میں عدالت میں نفاذ اردو کے لئے مقدمہ کیا گیا اور اس مقدمے کا فیصلہ 13سال کے بعد 8ستمبر 2015کو سپریم کورٹ نے دیتے ہوئے دستور کے مطابق نفاذاردو کا تاریخ ساز فیصلہ سنایا ۔سپریم کورٹ نے قومی زبان کے نفاذکو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو اس کے فوری نفاذکا حکم دیا۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ،چیف جسٹس ظہیر جمالی اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ انگریزی زبان کو انصاف کی فراہمی میں بنیادی رکاوٹ قرار دے چکے ہیں ۔مئی 2019میں سینیٹ نے بھی نفاذاردوکی متفقہ قرار داد بھی پاس کی ۔لیکن اس کے باوجود پاکستان میں عملی طور پر نفاذاردو کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کو آج 2023 کو آٹھ سال کو طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن پاکستان کے حکمراں اردو کے نفاذ کے لئے آمادہ نہیں ہیں اور پوری دلیری کے ساتھ دستور شکنی اور توہین عدالت کی جارہی ہے ۔اردوزبان برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیب وثقافت،علم وادب کی پہچان اور تقسیم کے بعد پاکستان کی قومی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔لیکن افسوس کہ آج 76سال گزر جانے کے باوجوداس کو وہ مقام نہیںدیا جارہا جس کی وہ حق دار ہے ۔علامہ اقبال نے اردو کو ایمان کا درجہ دیا اور اپنی بے مثال شاعری سے اسلام کی نشاۃثانیہ کے پیغام کو اردوکے ذریعے عام کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے اپنی بے مثال جدوجہد کے ذریعے اسلام کے نام پر پاکستان کا حصول ممکن کر دیکھایااور ساتھ ہی انھوں نے اردو زبان کو پاکستان کی شناخت قراردیا۔آج بدقسمتی سے ہم ملک پاکستان میں اردو کا نفاذنہ کر کے ان کی عظیم جدوجہد کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں۔اردو پاکستان کے لئے اتنی ہے لازمی اور ضروری ہے جتنا انسان کے زندہ رہنے کیلئے دوسرے لوازمات زندگی ،قوموں کی زندگی ان کے دین ،تہذیب وثقافت ،علم وادب اور زبان سے ہوتی ہے ۔آج ملک پاکستان میںانگریزی زبان کا ناجائزتسلط ہے اور قومی زوال کی ایک بڑی علامتوں میں سے ایک علامت اس انگریزی کا تسلط ہی ہے جس نے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی گرفت میںلے رکھا ہے ۔جان بوجھ کر اردو کے نفاذ میں رکاٹیں ڈالی جاتی ہیںاورعدالتی فیصلوںکو نظر اندازکیا جاتا ہے ۔ملک میںرومن اردو کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔نجی اسکولوںاور تعلیمی اداروںکے نام پر اردو کو مٹایاجاریا ہے ۔سرکاری اداروں میں مراسلے انگریزی میں لکھے جا تے ہیںاورہمارے عدالتی فیصلے بھی انگریزی میں آتے ہیں۔جس کی وجہہ سے ایک غیر محسوس نفسیاتی بوجھ ڈال کر ان کی صلاحیتوںکو محدود اور مخدوش کیا جا رہا ہے ۔ان حالات میں ضرورت ہے کہ اہل علم آگے بڑھے اور اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔اردو زبان بھی اہل پاکستان کے لئے بڑی اہمیت کی حامل زبان ہے ۔اردو کا نفاذ اسلام اور پاکستان کی خدمت ہے ۔اردو بھائی چارگی ،اخوت اور رابطے کی زبان ہے ۔عربی کے بعد یہ مسلمانوں کی دوسری بڑی زبان ہیں ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر پاکستان کے تمام وفاقی اور صوبائی نیم سرکاری اور نجی اداروںمیں دفتری کاروائی سو فیصد انگریزی کے بجائے قومی زبان میں کی جائے۔پہلی جماعت سے اعلی ترین سطح تک تعلیم بشمول طب ،میڈیکل ،انجینئرنگ دیگر سائنسی انتظامی اورسماجی علوم کی تعلیم اردو میں ہی دی جائے ۔عدالتیں عسکری ادارے بھی اپنا نظام تعلیم اردو میں منتقل کریں۔تمام کاروبار ی اور سماجی ادارے پاکستان میں قومی زبان اختیار کریں۔انگریزی کا دفتری اور تدریسی استعمال جرم قرار دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والو کو سخت سزا دی جائے ۔تاہم انگریزی کو بطور زبان پڑھنے اور پڑھانے کی عام اجازت ہو۔دستوری اور تاریخی حقائق سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کی بیورو کریسی کسی بھی قیمت پر پاکستان میں اردو کا نفاذ نہیں چاہتی کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اردو کے نفاذ سے ان سب اشرافیہ کی دوکانیں بند ہوجائینگی۔عوام کو شعور اورآگہی حاصل ہوجائے گی ۔ترکی ،چین جیسے ممالک نے اپنی زبان کو فروغ دے کر ہی ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے اور ان کا اپنا پورا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم اپنی قومی زبان میں ہی ہے ۔اردو کی اہمیت مسلمہ ہے اور اس کے نفاذاور اس کی ترویج کے لئے سب کو مل جل کر کوشش کرنا ہونگی ۔اردو ہماری پہچان اور سرمایہ ہے ۔اردو کے نفاذکے لئے اہل درد اپنا کردار ادا کریں اور اردو کے نفاذ کے لئے ہر سطح پر جدوجہد کی جائے ۔اردو کا جنم دہلی ، لکھنواوریوپی کے دیگر علاقوں میں ضرور ہوا اور اس کی آب یاری بھی وہی ہوئی لیکن آج اردو توہماری میراث ہے ۔ہمیں اردو کی ترویج اور نفاذ کے لئے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا ۔اردو کے نفاذکے لئے جتنے ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہ قابل فخر اور تحسین کا باعث ہیں اس سلسلے میں جتنی اور زیادہ تنظیمیں کام کرینگی ہمیں اپنی منزل پر پہنچنے میں آسانی ہوگی ۔کوشش کی جائے کہ اہل علم افراد ہی ان تحریکوں کی باگ دوڑ سنبھالے اور ذاتی تشہیر کے بجائے عملی کام کئے جائیں تووہ دن دور نہیں جب پاکستان کے حکمراں اور بیوروکریسی اردو کو اس کا حق دینے پر مجبور ہوجائیںگی اوراردو پاکستان میںعملی طور پر نافذ ہوکر وطن عزیز کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گی۔بقول حضرت الطاف حسین حالی
شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
error: