Advertisement

جاپان میں خواتین کی سیاسی شمولیت ایک ترقی پسند معاشرت کی علامت

تمام تر ترقی اور روشن خیالی کے باوجود جاپان ایک روایت پسند معاشرے کی شہرت رکھتا ہے جہاں مرد کو حاکمیت اور طاقت کا منبع تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس سماجی تفریق کے باوجود جاپان میں جن چند خواتین نے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر لوہا منوایا ان میں سے ایک نام محترمہ یوریکو کوئیکے کا بھی ہے۔انہوں نےآج سے آٹھ سال پہلے اپنے مرد پیشرو کو شکست دیتے ہوئے ٹوکیو کی پہلی خاتون رہنما بن کر ایک نئی تاریخ رقم کی اور حال ہی میں، بطورِ گورنر اپنی تیسری مدت کے انتخابات میں فتح حاصل کی ۔
جاپان میں ان کی فتح کو اس اعتبار سے اہم تبدیلی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر خواتین کا مردوں سے مقابلہ کرنا اب بھی جاپان میں ایک اچنبھا سمجھا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ جاپان عالمی صنفی مساوات کی درجہ بندی میں قدرے نچلی سطح پر ہے، چنانچہ مردانہ فوقیت رکھنے والے جاپانی معاشرے میں کوئیکے کی جیت کو ایک مثبت تبدیلی کی علامت سمجھا جارہا ہے۔
جاپان کے سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ جاپانی معاشرے میں خواتین کے اثر رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیاست میں صنف نازک کی بطور رہنما قبولیت بڑھ رہی ہے۔ ہرچند کہ یہاں کی سیاست اب بھی مردوں کے زیر تسلط ہے، لیکن قرین قیاس ہے کہ مستقبل میں ایک عورت کے وزیر اعظم بننے کے امکانات پر بھی گفتگو کا آغاز ہوجائے۔
جاپان ٹوڈے جو ایک موقر خبری ویب سائٹ ہے نے معروف پارلیمنٹیرین اور جاپان کی مرکزی اپوزیشن جماعت، کانسٹی ٹیوشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی سینئر عہدیدار چنامی نشی مورا کا ایک بیان شائع کیا ہے جس کے مطابق”سیاست میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے حوالے سے اب توقعات بڑھ رہی ہیں۔” ان کا کہنا ہے کہ خواتین کا سیاست یا پارلیمنٹ میں موجود ہونا اور اپنی آواز بلند کرنا انتہائی معنی خیز ہے۔سنہ1999 میں نیگاتا کی صوبائی اسمبلی میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والی، نشیمورا وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے طویل عرصے وہاں خدمات انجام دیں۔
محترمہ نشیمورا کی جماعت اگلے قومی انتخابات میں 30 فیصد خواتین اُمیدواروں کو پارلیمنٹ میں پہنچانے کی امید کر رہی ہے۔ جبکہ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم فومیو کیشیدا کی قدامت پسند لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی 30 فیصد خواتین کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اس تمام منظر نامے کے باوجود ایک چیلنج بہر حال موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جاپانی سیاست میں خواتین امیدواروں کو تلاش کرنا کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ جاپان میں اب بھی خواتین سے یہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں کہ وہ بچوں کی پرورش، بزرگوں کی دیکھ بھال اور دیگر خاندانی ذمہ داریوں کا بیڑہ اٹھائیں گی۔
اس صورتحال کے باوجود تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جاپان میں خواتین اب سیاسی کیریئر کا انتخاب کر رہی ہیں، لیکن اب بھی وہ اقلیت میں ہیں ، خصوصاً قومی سیاست میں ۔ جہاں انتخابی فیصلے بڑی حد تک بند دروازوں کے پیچھے، مردوں کی غلبے والی پارٹی سیاست سے طے پاتے ہیں۔ خواتین کی سیاسی میدان میں پیش رفت کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ کوئیکے کے اہم حریفوں میں سے ایک خاتون، رین ہو، بھی تھیں جنہیں ایک تجربہ کار سابق پارلیمنٹیرین سمجھا جاتا ہے اور وہ جو انتخابی معرکے میں تیسرے نمبر پر آئیں۔ کوئیکے کی مقبولیت کو محسوس کیا جارہا ہے اور میڈیا انہیں اہمیت دے رہا ہے ۔
محترمہ کوئیکے کے شخصی خاکے کو بیان کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ وہ ایک اسٹائلش اور اسمارٹ خاتون ہیں جو ٹیلیویژن نیوز کاسٹر بھی رہ چکی ہیں، وہ 1992 میں 40 سال کی عمر میں پہلی بار پارلیمنٹ میں منتخب ہوئیں۔ انہوں نے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے متعدد کلیدی کابینہ عہدوں مثلاً وزیر ماحولیات اور دفاع کی سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں، اور بعد ازاں وہ ٹوکیو کی گورنر بنیں۔
اسی طرح ایک اور خاتون رہنما رین ہو بھی ہیں جن کی وجہ شہرت پارلیمنٹ میں تیز اور سخت سوالات اٹھانا ہے۔ ان کی والدہ ایک جاپانی خاتون اور والد کا تعلق تائیوان سے تھا۔ وہ سابق ماڈل اور نیوز کاسٹر رہی ہیں جنہیں 2004 میں رکن پارلیمنٹ منتخب کیا گیا اور انہوں نے ماضی کی جمہوری پارٹی (جو اب تحلیل ہوچکی ہے) کی حکومت میں انتظامی اصلاحات کی وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
جاپانی سیاست میں خواتین کے کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے طاقتور خواتین پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
ماری میورا، جو صوفیہ یونیورسٹی کی پروفیسر اور جنس اور سیاست کی ماہر ہیں کے مطابق، ٹوکیو گورنر کے انتخاب میں خواتین کی موجودگی ایک مثبت پیغام ہے جو بتاتا ہے کہ خواتین بھی سیاسی رہنما بن سکتی ہیں۔
لیکن جاپان میں خواتین کے حوالے سے اب بھی کہیں کہیں عدم تحفظ کا احساس نظر آتا ہے مثلاً قومی اور مقامی قانون سازوں کے ایک سروےکے مطابق، 2022 میں تقریباً 100 خواتین جواب دہندگان میں سے ایک تہائی کو انتخابی مہمات یا کام کے دوران جنسی طور پر ہراس ہونے کے تجربے کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹوکیو اسمبلی کا تقریباً 30 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، مزید برآں شہری علاقوں کی قصباتی اسمبلیوں میں بھی ان کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔2021 میں جاپان کی 1,740 سے زیادہ مقامی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی دوگنی ہو کر 14.5فیصد ہوگئی ہے۔
دیہی علاقوں میں، جہاں زیادہ روایتی طور پر مرد غالب نظر آتے ہیں اور جہاں اس سے قبل اسمبلی میں خواتین کی شرح”صفر ” تھی،اور پارلیمنٹ میں، جہاں قدامت پسند لبرل ڈیموکریٹس تقریباً دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تقریباً بلا تعطل اقتدار میں ہیں، اب ایوان زیریں میں خواتین کی نمائندگی 10.3فیصد ہے،
واضح رہے کہ سنہ1946 میں، جب پہلی دفعہ 39 خواتین پارلیمنٹ میں منتخب ہوئیں، مردوں کے مقابلے میں یہ تناسب 8.4 فیصد سے زیادہ نہیں تھا۔
خواتین کی سیاست کے میدان میں بھرپور شرکت کا استعارہ بننے والی محترمہ یوریکو کوئیکے 2008 میں ایل ڈی پی قیادت کی دوڑ میں حصہ لینے والی پہلی خاتون امیدوار بنیں۔ جبکہ دو دیگر خواتین ، سناے تاکائیچی اور سیکو نودا، 2021 میں کیشیدا کے خلاف دوڑ میں شامل ہوئی تھیں۔ حالیہ ترین میں، وزیر خارجہ کامی کاوا کو ایل ڈی پی کی کم ہوتی ہوئی حمایت اور بدعنوانی کے اسکینڈلوں سے نمٹنے کے لئے تبدیلی کے لئے ایک موقع کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایل ڈی پی کے قانون سازوں اور پارٹی کے اراکین کے درمیان ووٹ کے ذریعہ فیصلہ کرنے والے فاتح خود بخود وزیر اعظم بن جاتے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ میں ایل ڈی پی کی غلبے کی وجہ سے۔ جاپانی نظام کے تحت، خاتون وزیر اعظم ہونے کا مطلب صنفی مساوات میں ترقی نہیں ہو سکتا کیونکہ مردوں کا سیاسی اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ لیکن یہ ایک اہم قدم ہو سکتا ہے، چاہے علامتی طور پر۔
چیاکو سٹو کہتی ہیں، “رول ماڈلز کا ہونا بہت اہم ہے … صنفی مساوات کو ظاہر کرنے کے لئے اور کہ خواتین بھی اعلیٰ عہدے کے لئے ہدف بنا سکتی ہیں۔” ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں خواتین اب دیوار کے پھول بننے کی توقع نہیں ہیں۔
جاپان میں خواتین کی سیاسی شمولیت کی یہ پیش رفت ایک ترقی پسند معاشرت کی علامت ہے۔ یہ دنیا کے ان ممالک کے لئے ایک مثال ثابت ہو سکتی ہے جہاں مردوں کی بالادستی قائم ہے۔ جاپان کی یہ تبدیلی اور ترقی خواتین کی مضبوطی اور ان کے حقوق کی پہچان کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ جب ایک معاشرہ خواتین کو برابری کے مواقع فراہم کرتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثبت پیغام دیتی ہیں کہ صنفی مساوات ممکن ہے اور اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
error: