Advertisement

آزاد کشمیر بھی شہ رگ ہے

پاکستانی حکمران طبقہ بشمول ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا یہی خیال ہے کہ ہم جو کچھ کہہ اور کررہے ہیں وہی درست ہے اور جو اس کے خلاف بولے وہ ملک دشمن اور غدار قرار پاتا ہے، کوئی معاملہ ہو عوام کے احتجاج پر ان سے ایسے نمٹا جاتا ہے جیسے دشمن فوج سے نمٹنا چاہئیے۔
یہی کچھ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر میں ہوا ہے ، مہنگائی پورے ملک میں ہے اور عوام اسی طرح پریشان ہیں جس طرح آزاد کشمیر کے عوام ہیں احتجاجی مظاہرے کسان بھی کرتے ہیں اساتذہ بھی کرتے ہیں طلبہ بھی اور سیاسی پارٹیاں بھی لیکن ان سب سے نمٹنے کا انداز ایک ہی ہے ۔ لاٹھی چارج شیلنگ کنٹینر لگا کر راستے بند کردینا اندھا دھند گرفتاریاں اور تھانے اور جیلیں بھر دینا ۔
اس میں کیا عورت کیا مرد کیا بچے کیا نابینا اور کیا اساتذہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے ،لیکن کشمیر کا معاملہ اس تمام یکسانیت کے ساتھ ساتھ حساس بھی ہے ، یہاں پاکستان کے مارشل لاووں اور احتجاجی تحریکوں میں خصوصی معاملہ رکھا جاتا رہا ہے، ضبط کا دامن نہیں چھوڑا جاتا پاکستان کی ہر حکومت آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ قرار دیتی ہے ، قائد اعظم نے کشمیر کو شاہ رگ قرار دیا تھا۔لیکن شاید ہم صرف مقبوضہ کشمیر کو شاہ رگ سمجھ رہے تھے ، جوکچھ مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہوا اور اس کے ساتھ ہی بھارتی پروپیگنڈا بھی شروع ہوگیا یہ سمجھنے کے لئیے کسی بڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہےکہ ایسا کیوں ہورہا ہے ، کشمیر کے معاملے میں تاریخ کو سامنے رکھیں تو بات سمجھ میں آجائے گی۔
برسوں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ بنائے رکھا اور ہر بھارتی ظلم کی رپورٹ کو اجاگر کیا جاتا تھا، کشمیر میں طاقت کے استعمال پر بھی پاکستان بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھاتا رہا ہے اور پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں مداخلت ،وہاں اپنے ایجنٹ بھیجنے کے الزامات بھی لگتے رہے ، دوسری طرف پاکستانی حکومتوں نے ملکی سیاست میں بھی اس صورتحال کو خوب استعمال کیا ۔ کشمیر بنے گا پاکستان ایک مقبول سیاسی نعرہ رہا ہے ۔
اب کیا ہورہا ہے کہ معاملہ الٹ گیا یا الٹا جارہا ہے ظالم ہی پروپیگنڈا کررہا ہے ، بھارت خصوصا مودی سرکار اپنے انتخابی ہتھیار کے طور پر پاکستانی کشمیر کو موضوع بنارہی ہے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ بھارت آزاد کشمیر میں کسی بےچینی سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اس کی نظریں پاکستان کے حالات پر بہت گہری ہیں ۔پاکستان میں فوج صرف سرحدوں پر الجھی ہوئی نہیں ہے اسے سیاست میں مداخلت کی قیمت سیاسی گروہ کی جانب سے پروپیگنڈے کی صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے اس پر طرہ یہ کہ بھارت دشمن کا دشمن دوست کے فارمولے پر ہر اس قوت کی مدد کرے گا جو اس کے دشمن پاک فوج کیلئے مشکلات پیدا کرے ۔
لہذا صورتحال اتنی سادہ نہیں جتنی کراچی لاہور ، اسلام آباد میں کسی احتجاج میں ہوتی ہے کہ مظاہرین سے جیسے چاہو نمٹ لو ، بلکہ شاہ رگ کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ شاہ رگ کے قریب ایسے حالات نہیں ہونے چاہئیں کہ اپنے ہی کسی عمل سے شاہ رگ کو نقصان پہنچ جائے، معاملات سے نمٹنے میں خرابی کہاں ہوئی اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے ، کشمیر میں اس قسم کا احتجاج پہلے نہیں ہوا تھا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ماضی قریب بلکہ گزشتہ چند برسوں میں کس سیاسی قوت کا کشمیر میں عمل دخل تھا چار برس میں کیا کیا بیج بوئے گئے ہیں، کے پی کے میں تناو کے بعد آزاد کشمیر میں نیا محاذ کھول دیا گیا ہے وہاں بوئے گئے بیجوں کی بھارت نے کتنی آبیاری کی ہے ۔
یہ جو ایکشن کمیٹی ہے یہ چند روز کی پیداوار نہیں ہے ایک سال سے موجود ہے اس کے مطالبات پر بات چیت مذاکرات اور فیصلے بھی ہوئے لیکن عمل نہیں ہوا، رویہ بھی اچھا نہیں رکھا گیا ، نتیجتا خرابیوں اور بیرونی قوتوں کو راستہ ملا اور 76 برس میں جو نہیں ہوا وہ ہو گیا اور یہ مصنوعی طور پر لا بٹھائے گئے حکمرانوں سے سنبھل نہیں سکا۔اور ایک ایک پارٹی کی ہر ہر حرکت کو مانیٹر کرنے والے چوک گئے یا حد سے زیادہ خود اعتماد تھے کہ طاقت کے ذریعہ نمٹ لیں گے، ایسی ہی صورتحال مقبوضہ کشمیر میں بھی برسوں رہی ہے لیکن اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود وہ اس پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب رہے ، اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو بھارت کی ہر حکومت کشمیر پر ایک ہی پالیسی رکھتی ہے۔
دوسرے پاکستان کی جانب کشمیر میں سکون کا یہ مطلب لیا گیا کہ کشمیریوں کے لئیے مختص وسائل ان تک نہ بھی پہنچیں اور کہیں اسٹریٹجی کے نام پر استعمال میں آجائیں تو کچھ نہیں ہوگا ، لیکن کب تک ۔ مقدس گائے پر بھی سوال اٹھ ہی جاتے ہیں ۔ اس احتجاجی تحریک میں خرابی بھی اسی لئیے آئی کہ ایک مرتبہ فیصلہ اور وعدہ کرکے عمل نہیں کیا اور سال گزاردیا تو ردعمل تو اناتھا۔ بجلی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف 3دن سے جاری احتجاج، رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد پرتشدد ہوگیا‘ شٹرڈاؤن پہیہ جام ہڑتال‘ مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں ایڈیشنل ایس ایچ او جاں بحق ہوگیا ‘36پولیس اہلکار اور 200سے زاید مظاہرین زخمی ہوگئے ‘ مظاہرین کی تمام اضلاع سے مظفرآبادکی جانب پیش قدمی روکنے کیلئے آزاد کشمیر کے دارالحکومت سمیت تمام اضلاع کے داخلی وخارجی راستوں کو بند کردیا‘ گھروں پر چھاپے مارے گئے ‘200سے زاید افراد کو گرفتار کرلیا ‘اندھا دھند چھاپے مارے گئے راستے بند کردئیے گئے مقامی انتظامیہ غائب ہوگئی اور رینجرز کی رہنمائی نہیں کی گئی جس سے حالات مزید خراب ہوئے اور کشیدگی بہت بڑھ گئی تاہم صدر مملکت آصف زرداری ،وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف نے صورتحال کا نوٹس لیا۔
وزیراعظم نے فنڈز بھی جاری کئے اور احکامات بھی جاری کیئے کابینہ نے سرعت سے منظوری بھی دی، لیکن اس معاملے سے حکمت عملی اور محبت سے نمٹنے کی ضرورت ہے ، شاہ رگ کے قریب خطرناک سرگرمیاں مناسب نہیں ہوتیں۔ ذراسی بد احتیاطی سے شاہ رگ کو نقصان ہوسکتا ہے ،اس واقعہ کے بعد حکمرانوں نے باقی ملک کیلئے بھی گویا یہ اصول طے کردیا ہے کہ احتجاج کرو گھیراؤ کرو ہم بجلی اور آٹا سستا کردیں گے ، اور یہ بھی طے ہوگیا کہ عوامی احتجاج آئی ایم ایف کی شرائط سے زیادہ مضبوط اور موثر ہوتا ہے ۔اگر حکمران ملک بھر میں کسانوں کے احتجاج ، مصنوعی مہنگائی اور غیر ضروری ٹیکسوں کے خلاف عوام کے شدید احتجاج کے منتظرہیں تو ان کو خبر ہونی چاہئیے کہ اب پورے ملک میں یہ احتجاج پھیل رہا ہے ، اس سے قبل کہ یہ احتجاج شدت اختیار کرے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے اور حکمران را اور غیر ملکی ہاتھ تلاش کریں، باقی ملک کے عوام کو بھی بجلی ، پیٹرول اور گیس کے نرخوں میں ریلیف دیں ، عوام پر نئے نئے ٹیکس مسلط نہ کریں، بڑوں سے ٹیکس وصول کریں ،ایک مرتبہ پھر عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کہ عوام کو ظالمانہ ٹیکسوں سے نجات دلوائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
error: