Advertisement

سعودی عرب: حضرت سليمان ؑ کیلیے جنات کے کھودے ہوئے کنویں

سعودی عرب کے ’’لینہ گاؤں‘‘ میں حضرت سليمان ؑ کیلئے جنات کے کھودے ہوئے کنویں جن میں ابھی تک پانی موجود ہے اور کچھ بند ہو چکے، ان کی روحانی تاریخ پیش خدمت ہے۔
پچھلے دنوں کمپنی کے کام سے سعودی عرب کے چھوٹے سے خوبصورت و سرسبزوشاداب شہر”رفحا” سے گزر ہوا توایک دم یاد آیا کہ کیوں نا اس کے تاریخی گاؤں ” لینہ ” کو دیکھا جائے جو شہر سے تھوڑی سی مسافت پر واقع ہے اور اس کی روحانی تاریخ کے بارے میں معلومات لی جائے۔ خیرمیں نے اس تاریخی گاؤں کا نام کافی سنا تھا۔ آج دیکھ بھی لیا۔ یہاں کے لوگ بڑی محبت کرنے والے آعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی میں مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ گاؤں کے کچھ بزرگ سعودیوں سے ملاقات ہوئی جو ایک روحانی محفل سجائے ” خیمہ ” میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے بھی اندر آنے کی اجازت طلب کی جس پر سب نے ” مرحبا ،، مرحبا اھلا و سھلا ” کہہ کر اپنے پاس بیٹھا لیا، اور پُرخلوص طریقے سے ان کی طرف سے روایتی ” قہوہ ” اور ساتھ آعلیٰ قسم کی نایاب کھجوریں بھی پیش کی گئیں اور خوب گپ شپ بھی لگائی گئی ۔ بعدازاں جنات کی جانب سے حضرت سلیمان علیہ السلام کیلئے کھودے ہوئے کنواں کو دیکھنے کیلئے میرے اصرار پر میرے ساتھ ایک دو بزرگ شہری اور ایک دو نوجوان نے تیاری کی جو گاؤں سے تھوڑی ہی دوری پر تھے۔ کچھ کنواں کی زیارت کی جن میں ابھی تک پانی موجود ہے اور کچھ بند ہو چکے ہیں۔ کچھ خود تحقیق کی کچھ معلومات ساتھ آنے والے بزرگ سعودی شہریوں نے دی تقریبا 7 گھنٹوں کی تحقیق کے بعد میں نے واپسی کی راہ لی۔ جنات کی جانب سے حضرت سلیمان علیہ السلام کیلئے کھودے ہوئے کنواں کی مزید تفصیل قارئین کی خدمت میں حاضرہے:۔
سعودی عرب کا ایک دور افتادہ گاؤں ”لینہ“ عہد قبل از تاریخ کے کئی عجائبات پر مشتمل ہے۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کیلئے جنات کے کھودے ہوئے 300 کنوئیں بھی ہیں۔ ان میں سے بیشتر اگرچہ ناکارہ ہو چکے ہیں، مگر 20 کنوؤں سے اب بھی لوگ میٹھا پانی حاصل کرتے ہیں۔ جنات نے یہ کنوئیں زمین کے بجائے سخت ترین چٹانوں کو توڑ کر بنائے تھے، جس پر اب بھی ماہرین حیران ہیں۔ ان عجائبات کو دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ سعودی عرب کا یہ تاریخی گاؤں ”لینہ“ مملکت کے شمالی شہر رفحا سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قدیم علاقہ اسٹرٹیجک اہمیت کے ساتھ متعدد آثار قدیمہ کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ یہاں ایک قدیم قلعہ بھی ہے۔ پرانے زمانے میں بیت المقدس اور یمن کے مابین پیدل سفر کا مشہور راستہ اسی گاؤں سے گزرتا تھا۔ عدن سے عراق جانے والا ملکہ زبیدہ کی بنائی ہوئی مشہور سڑک ”درب زبیدہ“ بھی یہیں سے ہو کر جاتی تھی۔ اب بھی سیر و تفریح کے شائقین بڑی تعداد میں اس علاقے کا رخ کرتے ہیں یہ قدیم گاؤں میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر بھی اترا تھا۔ سلیمان علیہ السلام جب اپنا لشکر لے کر یمن جا رہے تھے تو یہاں ٹھہرے تھے۔ اس بے آب و گیاہ علاقے میں لشکر کو پانی کی ضرورت آئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کو حکم دیا کہ وہ ہنگامی طور پر کنوئیں کھودیں تو جنات نے چٹانوں پر مشتمل اس سخت ترین زمین میں 300 کنوئیں کھود دیئے تھے۔ یہ انتہائی گہرے کنوئیں اب بھی اصلی حالت پر موجود ہیں۔ جنہیں زمین پر اب بھی اپنا وجود رکھنے والا معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔ جنات نے چٹانوں کو کاٹنے کیلئے ڈرل مشین کی طرح کوئی آلہ استعمال کیا تھا، جس کے نشانات اب بھی کنوؤں کی چاروں اطراف واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ماہرین اس پر تحقیق کر رہے ہیں کہ جنات نے آخر کس طرح ان سخت ترین چٹانوں کو 60 سے 80 میٹر گہرائی تک کاٹا تھا اور انہوں نے کونسے آلات کی مدد حاصل کی تھی۔ اگرچہ ان 300 میں سے اس وقت صرف 20 کنوئیں ہی کارآمد رہ گئے ہیں، تاہم سارے کنوؤں کے نشانات اب بھی یہاں موجود ہیں۔ ان کنوؤں کو دیکھنے والا ہر شخص حیرت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔تاریخی روایات کے مطابق جب حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے لاؤ لشکر سمیت یمن جارہے تھے تو وہ یہاں دوپہر کے کھانے کے لیئے اترے تھے۔ لشکر میں جنات بھی شامل تھے۔ جب لوگ پیاسے ہوئے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے کمانڈر ”سبطر“ کی طرف دیکھا تو وہ ہنس رہا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ، “آپ لوگ پیاس سے تڑپ رہے ہیں، مگر میٹھا پانی آپ کے قدموں کے نیچے ہی ہے۔” حضرت سلیمان علیہ السلام نے سبطر کو پانی نکالنے کا حکم دیا تو تھوڑی دیر میں ہی اس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے 300 کنوئیں کھود دیئے اور سیدنا سلیمانؑ کا پورا لشکر سیراب ہو گیا معروف مورخ یاقوت حموی کے دور تک یہ سارے کنوئیں میٹھے پانی سے لبالب بھرے ہوئے تھے۔ یاقوت حموی نے اپنی مشہور کتاب ”معجم البلدان“ میں لکھا ہے کہ ”لینہ“ عراق کے شہر واسط سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے ساتویں منزل پر آتا ہے۔ یہ علاقہ اپنے میٹھے پانی کے کنوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ ان کنوؤں کی وجہ سے یہ علاقہ بعد میں ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا۔ جہاں عراق اور عرب کے تاجر منڈیاں لگاتے۔ نجد سمیت سعودی عرب کے شمالی علاقوں کے لوگ یہاں آکر خریداری کرتے۔ تاجر اپنے سامان تجارت کو یہیں اگلے سیزن تک محفوظ کیلئے پہاڑوں پر بنے بڑے بڑے گوداموں میں رکھتے۔ جنہیں ”سیابیط“ کہا جاتا ہے۔ یہ گودام اب بھی وہاں موجود ہیں۔علاوہ ازیں یہ علاقہ مختلف آثار قدیمہ کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ سعودی حکومت نے یہاں ایک شاہی قلعہ بھی تعمیر کرایا ہے۔ 1354ھ میں تعمیر ہونے والے اس قلعے کو گارے، پتھروں اور لکڑیوں سے بنایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے جنات پر بھی حکومت دی تھی۔ جنات نے ان کے حکم سے بیت المقدس کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ وہ دور دراز سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال کر لاتے تھے۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام جنات سے بہت سے کام لیتے تھے۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی واضح طور پر کیا گیا ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر، تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
error: