ملک بھر میں متنازع انتخابی نتائج کے بعد الیکشن کمیشن کی فہرست کے مطابق پارٹیوں کی پوزیشن سامنے آنے کے بعد حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ اور بھاگ دوڑ شروع ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کمیشن کی فہرستوں سے قبل حکومت بنانے کا اعلان کردیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنے سابقہ موقف سے یوٹرن لے لیا ہے کہ اب مسلم لیگ کے ساتھ حکومت نہیں بنائیں گے۔ پی پی پی نے پیشکش کے جواب میں غور کا وعدہ کرلیا ہے۔ گویا نیم رضا مندی ہے۔ یعنی حکومت نہ بنانے کے فیصلے سے یوٹرن، اسی طرح پاکستان کی ہر سیاسی و فوجی حکومت کا حصہ رہنے والی ایم کیو ایم نے سب سے پہلے جاتی امرا پہنچ کر میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور کراچی کے مینڈیٹ کی چوری شدہ نشستیں نواز شریف کی جھولی میں ڈالنے کی پیشکش کردی۔ دونوں میں مل کر چلنے پر اتفاق ہوا ہے۔ یہ بات تو واضح نہیں ہوئی کہ مل کر چلنے کے اس عمل میں کراچی کو کیا ملے گا اور ایم کیو ایم کو کیا۔ لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ بے اصولی کی سیاست کرنے والے ایک ایک کرکے ایک پلڑے میں وزن ڈالنے جارہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) نے بھی حکومت سازی کے عمل میں شامل ہونے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے ، پیپلز پارٹی نے بھی شامل ہونے کا عندیہ ہی دیا ہے۔ آصف زرداری نے کہا ہے کہ ملک کو سیاسی عدم استحکام سے بچائیں گے۔ انہوں نے بلاول زرداری کے ساتھ شہباز شریف سے باضابطہ ملاقات میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ ان تینوں جماعتوں کے علاوہ جے یو آئی بھی حکومت سازی کے عمل میں شامل ہورہی ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق وفاق میں سات جماعتوں کی مخلوط حکومت بننے جارہی ہے اور آزاد ارکان کے لیے پیشکش کردی گئی ہے کہ انہیں آزاد رہتے ہوئے بھی وزارتیں ملیں گی۔ صوبوں میں اسپیکر اور گورنر کے عہدوں کی بندربانٹ بھی شروع ہوگئی ہے۔ دوسری طرف اصولی طور پر سیاست کرنے والی جماعت اسلامی نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت کو یہ بھی معلوم ہے کہ عدالت بھی انصاف نہیں کرسکے گی لیکن طریقہ تو یہی ہے کہ عدالت کے پاس جائیں۔ جماعت اسلامی نے تمام فارم ۴۵ جمع کرکے ثبوت بھی پیش کردیے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے اصولی موقف اختیار کیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کراچی سے سندھ اسمبلی کی نشست پر حلف نہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے کیونکہ اس پر بھی آزاد امیدوار آگے تھا۔ انہوں نے اخلاقی ذمے داری کا ثبوت دیا ہے لیکن دوسری طرف الیکشن کمیشن، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مثلث نے بے اصولی کی بنیاد پر جو سیاست اور نتائج جاری کیے ہیں ان پر مختلف جماعتیں ایسے ٹوٹ پڑی ہیں جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹتے ہیں۔ ان سب کو معلوم ہے کہ ان کی کامیابی کا اعلان مصنوعی اور جعلی ہے۔ اسی لیے جماعت اسلامی پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن مستعفی ہوجائے۔ سراج الحق نے کہا ہے کہ الیکشن جعلی ہیں تو حکومت بھی جعلی ہوگی۔ بے اصولی کی سیاست کا اصل محاذ جوڑ توڑ کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔ ابتدائی طور پر چار آزاد ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان بھی کردیا ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی مزید اعلانات ہوں گے۔ ان اعلانات کی پشت پر کیا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن دھونس، دبائو، رشوت ہی معروف و مشہور ہتھکنڈے ہیں جو اختیار کیے جاتے ہیں۔ ضمیر نام کی آواز خال خال ہی آتی ہے۔ یعنی اس وقت اصولوں اور بے اصولی کی سیاست کا مقابلہ جاری ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی نے اصولی موقف اختیار کیا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں گے، کسی سے اتحاد نہیں کریں گے، اگر متنازع حلقوں میں دوبارہ گنتی نہیں ہوئی تو اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ اس صورت حال میں جو مخلوط حکومت بنے گی اس کا کیا حال ہوگا۔ وہ ملک کو کس قدر استحکام دلائے گی، خود اس کے استحکام کا معاملہ ہی ہروقت متزلزل رہے گا۔ بھان متی کے کنبے میں بھانت بھانت کے لوگ ہوں گے۔ وزارتوں پر جھگڑے، مراعات پر لڑائیاں وغیرہ سب ہوں گے۔ سربراہ حکومت ہر وقت اپنی حکومت کو بچانے کی بھاگ دوڑ میں رہے گا تو ملک کو کیا استحکام دے سکے گا اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ ساری جماعتیں ہی تو ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی ذمے دار ہیں یہ ساری صورت حال عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے اور زبردستی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی مسلط کرنے کا نتیجہ ہے۔
سابقہ اور موجودہ نگراں حکومتیں اور تمام عسکری ذمے داران پاکستان میں بھارتی سازشوں، غیر ملکی دہشت گردی اور مداخلت کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں، ایسی مخلوط حکومت ملک کو کس طرح استحکام دے سکے گی۔ مزید یہ خبر بھی آرہی ہیں کہ مخلوط حکومت میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھی تین سال اور دو سال کا فارمولہ تیار ہورہا ہے۔ گویا ایک وزیراعظم کچھ فیصلے کرے گا تو دوسرا کچھ اور ۔اعتماد کا عالم یہ ہے کہ دوسری باری والا پہلی باری والے پر اعتبار کے لیے تیار نہیں کیونکہ پتا نہیں اسٹیبلشمنٹ کب بساط لپیٹ دے اسی اتحادی حکومت پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی حکومت میں رہی اور پی ڈی ایم سے باہر رہی اسی طرح تمام فیصلوں سے برأت بھی کرسکتی ہے اور ان میں شامل بھی تھی۔ ایم کیو ایم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے وہ آخری لمحات تک حکومتوں کا حصہ رہتی ہے اور ڈوبتے ہوئے جہاز سے سب سے پہلے چھلانگ لگاتی ہے۔ اسی طرح اور پارٹیاں بھی ہیں جو انتخابی نتائج پر معترض تو ہیں لیکن کسی اچھی پیشکش کی منتظر بھی کہ وہ جمہوریت ملکی استحکام اور رواداری کے نام پر حکومت میں شامل ہوجائیں گے۔
یہ سب مفاد پرستی کو وسیع تر ملکی مفاد کا نام دیتے ہیں۔ پورے انتخابی عمل کا نتیجہ صفر جمع صفر برابر صفر نکلا ہے جنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پہنچایا ایک بار پھر ان کو مسلط کردیا گیا۔ مینڈیٹ اس طرح چرایا گیا کہ لوگ حیران ہیں۔ انیس بیس کے فرق والے نہیں چوتھے پانچویں نمبر والے کامیاب قرار پائے ہیں۔ جنہیںتحفے میں سیٹیں دی گئیں، وہ کون سی اصولی سیاست کریں گے ہر وقت اپنے محسنوں کے احسان مند رہیں گے۔
Leave a Reply